سوال
بچہ مرا ہوا پیدا ہو تو اُس بچہ کی نما زجنازہ پڑھنی جائز ہے، یا نہیں، ایسے بچہ کو کفن دینا، غسل دینا چاہیے، یا نہیں، ایسے بچہ کو قبرستان میں دفن کرنا چاہیے، یا قبرستان سے باہر دفن کرنا چاہیے۔
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مشکوٰۃ میں ہے۔
((عَنِ الْمُغِیْرَۃِ بْنِ شُعْبَۃَ اَنَّ النَّبِیَّ ﷺ قَالَ الرَّاکِبُ یَسِیْرُ خَلْفَ الْجَنَازَۃِ وَالْمَاشِیْ یَمْشِیْ خَلْفَھَا وَاَمَا وَعَنْ یَمِیْنِھَا وَعَنْ یَسَارِھَا قَرِیْبًا مِنْھَا وَالسِّقْطُ یُصَلّٰی عَلَیْہِ وَیُدْعٰی لِوَالِدَیْہِ بِالْمَغْفِرَۃِ وَالرَّحْمَۃِ رواہ ابو داؤد فی روایۃ اَحْمد والتّرْمِذِیْ والنِّسَائِی وَاِبن ماجۃ قال الراکب خَلْفَ الْجَنَازَۃِ وَالْمَاشِیْ حَیْثُ شَائَ مِنْھَا وَالطِّفْلِ یُصَلّٰ عَلَیْہِ وِفِیْ الْمُصَابِیْحِ عَنِ الْمُغِیْرَۃِ بْنِ زِیَادٍ مشکوٰۃ باب المشی بالجنازۃ الخ))
’’یعنی مغیرہ بن شعبہ سے روایت ہے، نبی ﷺ نے فرمایا سوار جنازہ کے پیچھے چلے، اور پیادہ کو اختیار ہے، خواہ پیچھے چلے آگے، یا دائیں یا بائیں نزدیک اور کچھ بچہ جو پورے دنوں سے پہلے گر جائے، اس پر نماز پڑھی جائے، اور اُس کے والدین کے لیے بخشش و رحمت کی دعا کی جائے، اور ابو داؤد نے اس کو روایت کیا ہے، اور مسند احمد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ کی ایک روایت میں ہے، کہ سوار جنازے کے پیچھے چلے، اور پیادہ جہاں چاہے، اور لڑکے پر نماز جنازہ پڑھی جائے۔‘‘
یہ حدیث بظاہر عام معلوم ہوتی ہے کہ بچہ خواہ زندہ پیدا ہو یا مرا ہوا ہر صورت میں اُس پر نماز پڑھی جائے، لیکن دوسری حدیث میں شرط آئی ہے کہ آواز کرے تو نماز جنازہ پڑھی جائے، چنانچہ مشکوٰۃ کے اسی باب صفحہ ۱۴۰ میں ہے۔
((عَنْ جَابِرٍ اَنَّ النَّبِی ﷺ قَالَ الطِّفْلُ لَا یُصَلَّی عَلَیْہِ وَلَا یَرِثُ وَلَا یُوْرَثُ حَتّٰی رواہ الترمذی وابن ماجۃ اِلَّا اَنَّہٗ لَمْ یَذْکَرْ وَلَا یُوْرَثُ))
’’جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، لڑکا جب تک آواز نہ کرے، نہ اُس پر نماز جنازہ پڑھی جائے، نہ وہ کسی کا وارث ہو گا، نہ اس کا کوئی وارث ہو گ
0 Comments