پیر محمد کرم شاہ الازہری رحمۃ اللہ علیہ
نام و نسب
آپ کے نام کے بارے میں آپ کا اپنا قول ہے کہ 'حضرت پیر کھارا صاحب'، حضرت پیرمحمدکرم شاہ رحمتہ اللہ علیہ المعروف 'ٹوپی والے سرکار' کے ساتھ آپکے خانوادہ کے نسبی تعلقات ہیں۔ اس لئے آپکے جدِ امجد حضرت پیر امیر شاہ علیہ الرحمتہ نے انہی کی نسبت سے آپ کا نام محمد کرم شاہ تجویز فرمایا آپ کا شجرہ نسب شیخ بہاؤالدین زکریا ملتانی سے جا ملتا ہے۔
کنیت
آپ کی کنیت ابو الحسنات آپ کے بڑے صاحبزادے اور موجودہ سجادہ نشین پیر محمد امین الحسنات شاہ صاحب کے نام سے منسوب ہے۔
پیدائش
آپکی پیدائش21 رمضان المبارک 1336ھ بمطابق یکم جولائی 1918ء سوموار کی شب بعد نماز تراویح بھیرہ شریف ضلع سرگودھا میں ہوئی۔
شخصیت
ضیاء الامت جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری ایک عظیم صوفی و روحانی بزرگ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مایہ ناز مفسر، سیرت نگار، ماہر تعلیم، صحافی، صاحب طرز ادیب اور دیگر بیشمار خوبیوں کے مالک تھے۔ تفسیر ضیاء القرآن، سیرت طیبہ کے موضوع پر ضیاء النبی صلی اللہ علیہ وسلم،1971ء سے مسلسل اشاعت پزیر ماہنامہ ضیائے حرم لاہور، منکرین حدیث کے جملہ اعتراضات کے مدلل علمی جوابات پر مبنی حدیث شریف کی اہمیت نیز اس کی فنی، آئینی اور تشریعی حیثیت کے موضوع پر شاہکار کتاب سنت خیر الانام، فقہی، تاریخی، سیاسی، معاشی، معاشرتی اور دیگر اہم موضوعات پر متعدد مقالات و شذرات آپ کی علمی، روحانی اور ملی خدمات کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ دارالعلوم محمدیہ غوثیہ بھیرہ شریف اور ملک بھر میں پھیلی ہوئی اس کی شاخوں کی صورت میں بر صغیر کی بے نظیر علمی تحریک اور معیاری دینی کتب کی اشاعت و ترویج کا عظیم اشاعتی ادارہ ضیاء القرآن پبلیکیشنز ان کے علاوہ ہیں۔
تعلیمی مراحل
خاندانی روایت کے مطابق آپکی تعلیم کا آغاز قرآن کریم سے ہوا ثقہ روایت یہ ہے کہ حافظ دوست محمد صاحب سے تعلیم کا آغاز ہوا استاد صاحب انتہائی سادہ مزاج اور نیک طبیت تھے۔ قرآن پاک کی جلد بندی کا کام کرکے رزق حلال کماتے تھے پوری زندگی کسی کیلئے بوجھ نہ بنے نہایت ملنسار اور خلیق تھے۔
جن اساتذہ سے قرآن کی تعلیم حاصل کی انکے نام یہ ہیں۔
حافظ دوست محمد صاحب
حافظ مغل صا حب
حافظ بیگ صاحب
اس کو ل کی تعلیم
محمدیہ غوثیہ پرائمری اسکول کا آغاز 1925ء میں ہوا ۔آپ اس اسکول کے پہلے طالب علم ہیں۔ اس لحاظ سے سات سال کی عمر میں تعلیم کا آ غاز کیا پہلے استاد کا نام ماسٹر برخوردار تھا جو محمدیہ غوثیہ اسکول میں ہیڈ ماسڑ تھے۔ پرائمری اسکول میں اس وقت چار کلاسز ہوتی تھی اس لحاظ سے اس اسکول میں آپکی تعلیم کا سلسلہ 1925ء سے 1929ء تک رہا اس کے بعد آپ نے 1936ء میں گورنمنٹ ہائی اسکول بھیرہ سے میٹرک کا امتحان پاس کیا ہائی اسکول میں دورانِ تعلیم جن اساتذہ سے اکتساب فیض کیا انکے اسمائے گرامی یہ ہیں:
چوہدری ظفر احمد
چوہدری جہاں داد
فرمان شاہ
قاضی محمد صدیق
شیخ خورشید احمد
علوم عربیہ و دینیہ
حضور ضیاءالامت رحمتہ اللہ علیہ نے حضرت مولانا محمد قاسم بالا کوٹی سے فارسی کتب کریما، پندنامہ، مصدر فیوض، نام حق پڑھیں اور صرف و نحو اور کافیہ بھی پڑھیں۔ اس کے بعد مولانا عبد الحمید صاحب سے الفیہ، شرح جامی، منطق کے رسا ئل، قطبی، میر قطبی، مبزی، ملا حسن اور سنجانی جیسی کتابیں پڑھیں۔ دیگر کئی علماء سے بھی آپ نے علم دین کی بعض دوسری مشہور و معروف کتابیں پڑھیں۔
اوریئنٹل کالج لاہور
1941ء میں اوریئنٹل کالج لاہور میں داخلہ لیا اور فاضل عربی میں شیخ محمد عربی، جناب رسول خان صاحب، مولانا نورالحق جیسے اساتذہ سے علم حاصل کیا۔ آپ نے 600 میں سے 512 نمبر لیکر پنجاب بھر میں پہلی پوزیش لیکر فاضل عربی کا امتحان پاس کیا۔
دورہ حدیث
علوم عقلیہ و نقلیہ سے فراغت کے بعد دورہ حدیث شیخ الاسلام حضرت خواجہ قمر الدین سیالوی، سیال شرف کے حکم پر حضرت صدرالافاضل مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی سے 1942ء سے 1943ء تک مکمل کیا اور بعض دیگر کتب بھی پڑھیں۔
بی-اے
ء 1945میں جامعہ پنجاب سے بی-اے کا امتحان اچھی پوزیشن سے پاس کیا۔
جامعہ الازہر مصر
ستمبر 1951ء میں جامعہ الازہر مصر میں داخلہ لیا اور ساتھ ہی ساتھ جامعہ قاہرہ سے ایم-اے کیا۔ جامعہ الازہر سے ایم-فِل نمایاں پوزیشن سے کیا۔ یہاں آپ نے تقریباً ساڑھے تین سال کا عرصہ گزارا۔ دارالعلوم محمدیہ غوثیہ کی نشاۃ ثانیہ مصر سے واپس تشریف لا کر آپ نے دارالعلوم محمدیہ غوثیہ بھیرہ کی نشاۃ ثانیہ فرمائی اس کا نصاب ترتیب دیا اور علوم قدیمہ و جدیدہ کا حسین امتزاج آپ نے امت کو فراہم کیا اس وقت دارالعلوم محمدیہ غوثیہ کی شاخیں پاکستان ، برطانیہ ، یورپ سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں خدمت دین کا فریضہ ادا کر رہے ہیں اس ادارہ کے فارغ التحصیل علماء بھی پوری دنیا میں دین اسلام کے اجالے پھیلا رہے ہیں
عدالتی امور کی انجام دہی
1981ء میں 63 سال کی عمر میں آپ وفاقی شرعی عدالت کے جج مقرر ہوئے اور 16 سال تک اس فرض کی پاسداری کرتے رہے۔ آپ نے متعدد تاریخی فیصلے کیے جو عدالتی تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔
تصانیف
ضیاء القرآن
3500 صفحات اور 5 جلدوں پر مشتمل یہ تفسیر آپ نے 19 سال کے طویل عرصہ میں مکمل کی۔
جمال القرآن
قرآن کریم کا خوبصورت محاوراتی اردو ترجمہ جسے انگریزی میں بھی ترجمہ کیا گیا۔
ضیاء النبی
7 جلدوں پر مشتمل عشق و محبتِ رسول سے بھرپور سیرت کی یہ کتاب عوام و خواص میں انتہائی مقبول ہے۔ اس کا انگریزی ترجمہ بھی تکمیل پزیر ہے۔
سنت خیر الانام
بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے نصاب میں شامل یہ کتاب سنت اور حدیث کی اہمیت اور حجیت کی موضوع پر لکھی گئی ہے۔ یہ آپ کی پہلی کاوش ہے جو آپ نے جامعہ الازہر میں دورانِ تعلیم تالیف کی۔
ماہنامہ ضیائے حرم
ء1971 میں آپ نے ماہنامہ ضیائے حرم کا اجراء کیا جو تاحال مسلسل شائع ہو رہا ہے۔
ضیاء القرآن پبلیکیشنز
جون 1974ء میں لاہور میں ضیاء القرآن پبلیکیشنز کا قیام عمل میں آیا جو اسلامی مواد کو دنیا بھر میں پھیلانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کر رہا ہے۔
اعزازات
ستارہ امتیاز
حکومت پاکستان نے 1980ء میں آپ کی علمی و اسلامی خدمات کے اعتراف میں اعزاز سے نوازا۔
نت الامتیاز
مصر کے صدر حسنی مبارک نے 6 مارچ 1993ء میں دنیائے اسلام کی خدمات کے صلے میں دیا۔
سند امتیاز
حکومت پاکستان اور حکومت آزاد کشمیر نے 1994ء میں سیرت کے حوالے سے آپ کی گراں قدر خدمات کے اعتراف یہ میں اعزاز دیا۔
الدائرہ الفخری
ڈاکٹر احمد عمر ہاشم نے جامعہ الازہر کا یہ سب سے بڑا اعزاز آپ کو دیا۔
وصال و تدفین
9 ذوالحجۃ 1418ھ بمطابق 7 اپریل 1998ء بروز منگل رات طویل علالت کے بعد آپ کا وصال ہوا۔
سجا دہ نشین آستانہ عالیہ سیال شریف امیر شر یعت حضرت خوا جہ محمد حمید الدین سیا لوی دا مت برکاتہم القدسیہ نے نماز جنازہ کی امامت کرائی، فخرالملت والدین حضرت خواجہ غلام فخر الدین سیالوی کے علاوہ سینکڑوں مشائخ اور علما ء نے نماز جنازہ میں شرکت فر مائی۔ آپ کے وصال پر پورے عالمِ اسلام سے امت مسلمہ کے عوام و خواص نے جس محبت و عقیدت کا اظہار کیا وہ ایک ضربالمثل بن گیا۔ آپ کی قبر المبارک آپ کی وصیت کے مطابق دربار عالیہ حضرت امیر السالکین میں آپ کے دادا جان حضرت پیر امیر شاہ کے بائیں جانب کھودی گئی۔ تقریباً ایک سال تک آپ کا مرقد انور سادہ صورت میں مرجع خلائق رہا۔ وصال سے چند ماہ بعد مو رخہ 12 ما رچ بروز جمعتہ المبارک سے مرزا محمد آصف صاحب نے کام کا آغا ز کر د یا انہوں نے دربار عالیہ میں موجود تینوں قبور کا مشتر کہ تخت بلند کر کے انہیں بہترین قسم کے پتھر سے پختہ کر دیا۔
0 Comments